ایمان قیصرانی ۔۔۔ دھند اوڑھے ہوئے پھولوں کی گلی لگتی ہے

دھند اوڑھے ہوئے پھولوں کی گلی لگتی ہے
تجھ سے بڑھ کر تو تری یاد بھلی لگتی ہے

تم تو کہتے تھے سنبھالااسے بچوں کی طرح 
پر یہ تصویر تو تھوڑی سی جلی لگتی ہے

ایسے پلکوں پہ جما ہے میرے وحشت کا غبار
عمر جیسے کسی صحرا میں ڈھلی لگتی ہے

بعد آیات ِ کریمہ کے ، درودوں کے سدا
سخت مشکل میں مجھے نادِ  علی لگتی ہے

خُشک پلکوں پہ لئے زرد اداسی کے دیئے 
کیا یہی لڑکی تمہیں نازوں پلی لگتی ہے؟

زندگی تلخ بھی ہے ترش بھی ایماں لیکن
اس سے ملتی ہوں تو مصری کی ڈلی لگتی ہے

Related posts

Leave a Comment